16 december 1971
- Get link
- X
- Other Apps
کبھی کچھ زخم ناخن سے کُھرچ کر تازہ کردینے کو دل کیوں کرتا ہے؟
انہیں پھر سے تازہ کر دینا, ان سے اٹھنے والی ٹیسوں کو پھر سے محسوس کرنا ایسے کھرچنا کہ ان سے پھر لہو بہہ نکلے اور ساتھ ہی آنکھوں سے آنسو بھی۔۔۔!😭
یہ سولہ دسمبر کی تاریخ آخر ہر برس کیوں آ جاتی ہے؟ مجھے تاریخ یاد دلانے؟ میرے زخم پھر ہرے کر جانے
یار بنگالیو!
تم سے بھلا میرا رشتہ ہی کیا؟ تم جب جدا ہوئے تو میں بمشکل پائیں پائیں چلتا تھا مگر وہ کیا چیز ہے جو تمہیں بھولنے نہیں دیتی؟ کیا محض زمین کا ٹکڑا؟میرا وطن چھوٹا ہو گیا؟ اس لئے؟
نہیں یارو!
تمہاری جدائی کے دکھ کو نصف صدی ہونے کو آتی ہے مگر یہ دکھ دل میں کسی کانٹے کی طرح کُھبا ہوا ہے خنجر کی طرح پیوست ہے۔۔۔!
مگر میں کیا کہوں ! میرے اپنے چاہتے ہیں میں اسے بھول جاوں نظریہ کی بنیاد پر بننے والی یہ دوسری ریاست بیدردی سے کُند چھری سے کاٹ پیٹ کر دو ٹکڑے کر دی گئی میرےنوے ہزار سورما جیل ہوئے میری قوم کو شکست کا گہرا گھاو لگامیرا بازو کاٹ دیا گیا مگر میرے قبیلے کے “بڑے”کہتے ہیں جو بیت گیا اسےبھول جا رات گئی بات گئی یرغمال میڈیا نئی نسل میں احساس زیاں پیدا تو کیا کرتا اسے اس روز یاد تک نہین ہوتا، میرا نصاب تعلیم اس سانحہ کو بھول چکا گویا کچھ ہوا ہی نہین ۔۔۔
مگر آفرین ہے تمہیں ۔۔!
عبد المالک شہید کے پیروکاروں ،غلام اعظم کے چاہنے والو البدر اور الشمس کے وارثوں تم شکستہ ہاتھوں اور ٹوٹے پھوٹے چراغوں سے ان کی یادوں کے دیوں میں خون جگر جلاتےرہتے ہوہر سال اس زخم کو تازہ کر دیتے ہو یادوں کی یہ امانت آگے بڑھاتے چلتے ہو کہ زندہ اور غیرت مند قومیں سینکڑوں سال بعد بھی اپنی نسلوں کو دشمن کا شعور دیتی رہتی ہیں
میرے بنگالی بھائیو!
ہمیں ہمارے بڑوں اور بروں کے وجہ سے دشمن نہ سمجھ لینا ہم آج بھی تمہیں باغ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا خوبصورت پھول سمجھتے اور یاد کرتے ہیں
وہ ہم سفر تھا مگر اس سے ہمنوائی نہ تھی
کہ دھوپ چھاوں کاعالم رہا جدائی نہ تھی
- Get link
- X
- Other Apps
Comments
Post a Comment