Ahmed Faraz

گرفتہ دل عندلیب گھائل گلاب دیکھے
محبتوں نے سبھی رتوں میں عذاب دیکھے

وہ دن بھی آئے صلیب گر بھی صلیب پر ہوں
یہ شہر اک روز پھر سے یوم حساب دیکھے

یہ صبح کا ذب تو رات سے بھی طویل تر ہے
کہ جیسے صدیاں گذر گیئں آفتاب دیکھے

وہ چشم محروم کتنی محروم ہے کہ جس نے
نہ خواب دیکھے نہ رتجگوں کے عذاب دیکھے

کہاں کی آنکھیں کہ اب تو چہروں پہ آبلے ہیں
اور آبلوں سے بھلا کوئی کیسے خواب دیکھے

عجب نہیں ہے جو خوشبوؤں سے ہے شہر خالی
کہ میں نے دہلیز قاتلاں پر گلاب دیکھے

یہ ساعت دید اور وحشت بڑھا گئی ہے
کہ جیسے کوئی جنوں زدہ ماہتاب دیکھے

مجھے تو ہم مکتبی کے دن یاد آ گئے ہیں
کہ میں اسے پڑھ رہا ہوں اور وہ کتاب دیکھے
(احمد فراز)

Comments

Popular posts from this blog

پاک فوج , لبرلوں کی آنکھوں کا کانٹا