kabhi kbhi /کبهی کبهی

کبھی کبھی یاد میں ابھرتے ہیںنقش ماضی مٹے مٹے سے
وہ آزمائش دل و نظر کی وہ قربتیں سی وہ فاصلے سے
کبھی کبھی آرزو کے صحرا میں آ کے رکتے ہیں قافلے سے
وہ ساری باتیں لگاؤ کی سی وہ سارے عنواں وصال کے سے

نگاہِ و دل کو قرار کیسا نشاط و غم میں کمی کہاں کی
وہ جب ملے ہیں تو ان سے ہر بار کی ہے الفت نئے سرے سے

بہت گراں ہے یہ عیش تنہا کہیں سبک تر کہیں گوارا
وہ درد پنہاں کہ ساری دنیا رفیق تھی جس کے واسطے سے

تمہیں کہو رند و محتسب میں ہے آج شب کون فرق ایسا
یہ آ کے بیٹھے ہیں میکدے میں وہ اٹھ کے آئے ہیں میکدے سے


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


فیض احمد فیض

Comments

Popular posts from this blog

پاک فوج , لبرلوں کی آنکھوں کا کانٹا