phr waza'a ehtyat se rukne lga hai dum / Galib

پھر وضعِ احتیاط سے رکنے لگا ہے دم
برسوں ہوئے ہیں چاک گریباں کیے ہوئے

دل پھر طوافِ کوئے ملامت کو جائے ہے
پندار کا صنم کدہ ویراں کیے ہوئے

پھر شوق کر رہا ہے خریدار کی طلب
عرضِ متاعِ عقل و دل و جاں کیے ہوئے

مانگے ہے پھر کسی کو لبِ بام پر ہوس
زلفِ سیاہ رخ پہ پریشاں کیے ہوئے

چاہے ہے پھر کسی کو مقابل میں آرزو
سرمے سے تیز دشنۂ مژگاں کیے ہوئے

پھر جی میں ہے کہ در پہ کسی کے پڑے رہیں
سر زیر بارِ منتِ درباں کیے ہوئے

جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت، کہ رات دن
بیٹھے رہیں تصورِ جاناں کیے ہوئے

غالبؔ ہمیں نہ چھیڑ، کہ پھر جوشِ اشک سے
بیٹھے ہیں ہم تہیّۂ طوفاں کیے ہوئے

Comments

Popular posts from this blog

پاک فوج , لبرلوں کی آنکھوں کا کانٹا